فتح خیبر

فتح خیبر
فتح خیبر

 جنگ کے اسباب
 خیبر یہودی قوت کا سب سے بڑا مرکز  :عرب میں یہودیوں کی قوت کا سب سے بڑا مرکز خیبر تھا یہ زرخیز وادی مدینہ منورہ سے جانب شمال قریباً 80 میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہاں قدیم زمانہ سے یہود آباد تھے مدینہ سے جو یہودی نکالے گئے تھے وہ درہ خیبر میں آباد ہوگئے تھے انہوں نے وہاں مضبوط قلعے بنا لیے تھے خیبر بھی قلعے کو ہی کہتے ہیں ۔
ملت اسلامیہ کے خلاف سازشوں کا مرکز:خیبر ملت اسلامیہ کے خلاف سازشوں کا مرکز  بن گیا تھا۔ قریب  ہی عرب کا ممتاز قبیلہ غطفان آباد تھا جو یہود خیبرکا حلیف  تھا۔ سلام بن ابی الحقیق جو ان دونوں یہودکا سردار تھا بڑابا اثر تھا۔ اس نے غطفان اور اس کے آس پاس کے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرلیا۔
مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاریاں:ایک عظیم الشان فوج کے ساتھ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فتنہ انگیزی کی خبر ہوئی تو چند صحابہ کرام  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے   جاکر سلام  کو قتل کردیا ۔
اسیر کا قتل: سلام بن ابی الحقیق کے بعد اسیربن  رزام مسندریاست پر بیٹھا۔اس نے یہودیوں کو جمع کرکے ان سے کہا میرے پیشروؤں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جو تدبیر اختیار کی تھی وہ غلط تھیں خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالحکومت پر حملہ کرنا چاہیے۔چنانچہ غطفان  غیرہ کا دورہ کرکے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے ایک لشکر تیار کیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے عبداللہ بن رواحہ کو حکم دیا کہ یہودی سردار اسیربن رزام  سے گفتگو کرکے اسے مصالحت کی غرض سے مدینہ لا ئیں ۔اسیر تیس آدمیوں کا جتھہ  لے کر اسلامی وفدکے ساتھ روانہ  ہوا ۔کیونکہ یہود کا اعتبار نہ تھا  اس لیے ہر یہودی کے ساتھ ایک مسلمان سوار تھا کہ وہ اچانک حملہ نہ کر دیں اس احتیاط کے باوجود اسیر نے غداری کی اس نے بے خبری میں عبداللہ بن رواحہ کی تلوار چھیننا  چاہی عبداللہ بن رواحہ نے ایک ہاتھ ایسا مارا کہ  اس کی ٹانگ اڑا دی باقی صحابہ نے بھی تلواریں بے نیام کرلیں اور مسلمانوں نے اپنے  اپنے یہود ی حریف کو مار ڈالا صرف ایک یہودی زندہ بچا۔
مدینہ سے لشکر اسلا م کی روانگی: یہودی  پہلے سے تیاریاں کررہے تھے ۔اسیر کے قتل سے انہیں ایک بہانہ ہاتھ آگیا۔وہ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بالکل آمادہ ہوگئے ۔محرم 7ہجری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر عازم خیبر ہوئے۔ صلح حدیبیہ کے بعد فتح خیبر کی بشارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل چکی تھی۔ یہ شرکائے حدیبیہ کی جان سپاہی کا ثمرہ تھا اس لیے خیبر کی کامرانی منفعت کے حقدار بھی وہی تے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہم کو اصحاب  حدیبیہ کے لیے مخصوص کردیا۔ روانگی کے وقت فوج کی تعداد پندرہ سو تھی۔ان میں تین سوار تھے ۔
واقعات
خیبرمیں یہود کے قلعے: خیبر میں یہودیوں کے چھ قلعے تھے۔ان میں بیس ہزار تھربہ کا رسپاہی تھے۔عرب کا مشہور بہادر مرحب بھی یہیں رہتا تھا مسلمانوں کی نقل و حرکت دیکھ کر یہودیوں نے سامان رسد قلعہ ناعم میں جمع کیا تھا اور فوجیں دوسرے قلعوں میں تھیں۔اس لیے مسلمانوں نے خیبر پہنچ کر سب سے پہلے قلعہ ناعم پر قبضہ کیا لیکن یہاں کوئی بڑی قوت نہ تھی ،اس لیے آسانی کے ساتھ فتح کر لیا۔(سیرت ابن ہشام)چھوٹے چھوٹے لعے بھی آسانی کےساتھ تسخیر کرلیے ۔سب سے اہم قموص کا قلعہ تھا۔ مرحب اسی میں رہتاتھا ۔اس لیے آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے خاص اہتمام فرمایا ۔پہلے یکے بعد دیگرے حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مہم پر مامور فرمایا۔ لیکن قلعہ فتح نہ ہوسکا۔
حضرت علی اور مرحب کا مقابلہ اور خیبر کی فتح: دوسرے دن  علم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرحمت فرمایا۔مرحب رجز پڑھتا ہوا مقابلہ میں آیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے قتل کردیا۔اس کےقتل ہوتے ہی یہوی ہمت ہار گئے اور بیس دن کے محا صرہ کے بعد قموص کا قلعہ فتح ہوگیا۔اس معرکے میں ترانوے یہودی مقتول اور بیس مسلمان شہید ہوئے۔
یہود کی زمینوں پر قبضہ : خیبر فتح ہونے کے بعد مسلمانوں نے زمینو ں پر قبضہ کرلیا ۔یہودیوں نے درخواست کی کہ زمینیں ہمارے قبضہ میں رہنے دی جائیں ۔ہم اس کے معاوضہ میں نصف پیداوار دیا کریں گے۔آپﷺ نے منظور فرمالیا۔ جب بٹائی کا وقت آتا تو رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو بھیجتے ،وہ غلہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے کہتے کہ جو حصہ چاہو لے لو۔ یہودیوں پر اس کا یہ اثر  پڑا کہ وہ کہتے تھے زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں۔
اس جنگ میں رئیس خیبر کی لڑکی صفیہ قید ہوئی تھی اور حضرت وحیہ کلبی کے حصہ میں آئی تھیں ۔ لیکن لوگوں اعتراض کیا کہ قریظہ اور نضیر کی رئیسہ وحیہ کے حصہ میں نہیں جاسکتی ،رسول پاک ﷺ کے علاوہ اور کوئی اس کا اہل نہیں۔ان کے اعتراض پر آپ نے ان کو آزاد کرکے اپنے عقد میں لے لیا۔ فتح خیبر کی تکمیل میں قریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا ۔غزوہ خیبر کا ذکر ہےکہ یہودکا ایک حبشی غلام آنحضور ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اسلام لایا۔ اس کے ہمراہ بکریوں کا ریوڑ تھا جو وہ چرایا کرتاتھا اس نے حضور سے عرض کیا کہ یہ بکریا ں میرے پاس میرے مالک کی امانت ہیں ،ان کو کیا کروں ؟؟
آپ ﷺ نے فرمایا انہیں واپس ہانک دو ، یہ اپنے مالک کے پاس چلی جائیں گی۔ غلام نے تعمیل ارشاد کر دی ۔غلام نے جہاد میں حصہ لیا اور شہادت پائی۔
یہود کا حضور پاک ﷺکو زہر کھلانا:مرحب کی بھتیجی زینب بنت حارث نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت کی اس نے یہود کی سازش سے بکری کے گوشت میں زہر ملا دیا ۔ حضور پاک ﷺچند صحابہ کے ساتھ کھانے پر بیٹھے۔آپ ﷺ کو جلدی علم ہوگیا۔ صحابہ سے فرمایا کھانا چھوڑ دو اس میں زہر ہے  آپ ﷺکے ساتھ ایک صحابی بشر بھی تھے وہ بیمار پڑ گئے آپ ﷺ نے یہودیوں کو بلا کر پوچھا انہوں نے اعتراف کیا آپ نے اس وقت  درگزرسے کام لیا لیکن جب حضرت بشر وفات پا گئے تو زینب کو قصاص میں قتل کر ڈالا۔
فدک اور وادی القریٰ کی فتح:حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر سے واپسی پر فدا کے یہود کے پاس اسلام کا ایک مبلغ بھیجا۔اس نے نصف  زمین پر مصالحت کرلی۔ خیبر کے بعد مسلمان وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔یہودی  اس وقت بھی شرارت سے باز نہ آئے اور تیر برساکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو شہید کردیا ۔اس لیے جنگ ہوگئی لیکن یہودیوں نے معمولی مقابلہ کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور خیبر کی صشرائط  پر صلح کرلی۔
(غلام محمد حریری)