فتح شام

Islamic Victories

Islamic victories

فتح شام
وجوہ  و اسباب
عربوں کی دوسری ہمسایہ سلطنت شام تھی۔ اس زمانے میں شام بھی سلطنت روم کا حصہ تھا۔رومی عربوں سے دشمنی رکھتے تھے ان کی عداوت مذہبی تھی اور اسلام  سے یہ مخالفت اور بڑھ گئی کیونکہ وہ اسلام کو عیسائی مذہب کے لیے خطرہ سمجھنے لگے انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر وحیہ کلبی کو واپسی پر لوٹ لیا۔ دوسرے سفیر حارث بن عمر کو غسانی حکمران شرجیل نے شہید کردیا تھا۔ اس کا بدلہ لینے کے لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچنا ضروری سمجھا لیکن انہوں نے مقابلہ نہ کیا اس کے بعد بھی چونکہ خطرہ برادر موجود تھا۔ اس  لیے آپ حضور پاک ﷺ  اسامہ بن زدی  کی سرکردگی میں ایک مہم بھیجنے کی تیاری کر رہے تھے کہ  آپ حضور پاک ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔حضرت ابو بکر خلیفہ بنتے ہی اسامہ بن زید کو ایک لشکر کے ساتھ سرحد شام پر بھیج کرحضور پاک ﷺ  کے ارادے کی تکمیل کی تھی۔ ایرانی مہمات کے موقع پر عیسائی قبائل نے بار بار ایرانیوں کی مدد کرکے اور خودحضرت خالد  کے لشکر سے ٹکرا کر اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ وہ مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش ہیں۔ چونکہ رومی  مسلمانوں کی سلطنت کو ہمیشہ کے لئے مٹانے کی فکر میں تھے اور ان کے حملہ کا ہر وقت خطرہ تھا اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شمالی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مقرر کیا اور صرف مدافعتی کاروائی کا حکم دیا مگر عیسائیوں نے اپنے جارحانہ اقدام سے حضرت خالد بن ولید کو لڑنے پر مجبور کردیا مسلمانوں نے کئی باررومیوں  کواندرون شام تک بھگا دیا۔
خالد بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ کی درخواست پر حضرت ابوبکر  عکرمہ بن ابوجہل کو شام روانہ کیا تھا خالد بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ کو جب عکرمہ کی آمد کی خبر ملی تو وہ شام کے اندر گھس گئے مگر رومی جرنیل  باہان کے ہاتھوں شکست کھائی۔خوش قسمتی عکرمہ نے وقت پر پہنچ کر مسلمانوں کو تباہی  سے بچالیا۔اس شکست کی اطلاع ملنے پرحضرت ابو بکر صدیق نے 13 ہجری میں صحابہ کرام سے  مشورہ لینے کے بعدشام پر کئی طرف سے لشکر کشی کا انتظام کیا اور ہر علاقے کے لیے علیحدہ علیحدہ فوج مقرر کردی۔چنانچہ حضرت عبیدہ حمص پر، زید بن ابی سفیان دمشق پر،شرجیل بن حسنہ اردن پر، اور عمر بن العاص فلسطین پر مامور ہوئے۔ مجاہدین کی تعداد  27 ہزار تھی۔ ان سرداروں کوسرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے جن کو قیصر نے پہلے ہی الگ الگ ایک سردار کے مقابلہ میں متعین کر دیا تھا یہ دیکھ کر ان افسران اسلام نے مزید کمک کے لیے لکھ بھیجا ۔چونکہ اس وقت دارالخلافت میں کوئی فوج موجود نہ تھی اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید کو لکھا کہ مہم عراق کی باگ مثنیٰ کےہاتھ دے کر شام کی طرف روانہ ہوجائیں فرمان پہنچتے ہیں خالد ایک جمعیت کے ساتھ شامی میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔