غزوہ تبوک

غزوہ تبوک ۔۔۔۔۔۔۔۔(رجب 9  ہجری)
 
تبوک عرب اور شام کا سرحدی مقام ہے۔یہ رومیوں کی حکومت میں تھا۔روم اور عرب کے سرحدی علاقے پر رومی حکومت کی جانب سے عرب سردار حکومت کرتے تھے۔شرجیل والئی بصریٰ بھی ان ہی سرداروں میں سے ایک تھا۔جنگ موتہ کے بعد ہی سے رومیوں نے عرب پر حملہ کا ارادرہ کرلیاتھا۔شام کےغسانی خاندان کو جو سلاعرب اور مذہباً عیسائی تھا اور رومی حکومت کے ماتحت تھا اس مہم پر مامور کیاتھا۔
 
اس وقت سے عرب پر ان کے حملہ کی افواہیں برابر پھیلتی رہتی تھیں ۔اسی زمانہ میں شام کے تاجروں نے مدینہ آکر اطلاع دی کہ شام میں رومیوں نے بہت بڑی فوج جمع کرلی ہے۔یہ افواہیں بھی پھیل گئیں کہ عیسائی عربوں کی درخواست پر قیصر روم نے چالیس ہزار فوج بھیج دی ہے۔
 
چونکہ رومیوں کی جانب سے خطرہ تھا اس لئے ان خبروں پر یقین کرنے میں تامل نہ ہو ا ۔آنحضرتﷺرجب 9 ھ میں حضرت علی کو مدینہ چھوڑ کر تیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ جس میں دس ہزار سوار تھے شام روانہ ہوئے ۔تبوک پہنچ کر معلوم ہو ا کہ حملہ کی افواہیں غلط تھیں ۔
 
تاہم آپ نے بیس دن تک تبوک میں قیام فرمایا ۔ایلہ کے سردار یوحنا نے حاضر ہوکر جزیہ دینا قبول کیا اور ایک خچر ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔”دومتہ الجندل” کا حاکم قیصر روم کے ماتحت تھا۔اس کی جانب سے خطرہ تھا اس لئے آپ  ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو چار سو آدمیوں کے ساتھ دومتہ الجندل بھیجا ۔خالد بن ولید نے اسے گرفتار کر لیا۔
 
وہ مصالحت پر آمادہ ہوگیا۔حضرت خالد نے اسے اس شرط پر رہا کردیا کہ وہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوکر شرائط صلح نامہ پیش کرے۔بیس دن تبوک کے قیام کے بعد آس پاس کے حکمرانوں کو مطیع بنا کر آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لائے۔دومتہ الجندل کا والی مدینہ حاضر ہوا ۔آپ نے اسے امان نامہ عطاکرکے واپس فرمادیا۔