نمبر دار گیدڑ

 
نمبردارگیدڑ
 
 
 
کسی گا ؤں کے قریب گیدڑ کا ایک گروپ رہتا تھا ۔گاؤ ں کے تمام لوگ اس گیدڑ کے گروپ سے تنگ تھے کیونکہ آئے دن گیدڑ کسانوں کی لگائی گئی سبزیاں اور تربوز کھا جاتے ۔جس سے ان کسانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا تھا ۔گاؤں کے لوگ اس نقصان سے بچنے کے لیے مختلف تدابیرکرنے لگے آخر کا ر انہوں نے گاؤں ایک عقلمند شخص سے مشورہ کیا ۔جس نے گاؤں کے لوگوں کو مشورہ دیا کہ آپ میں سے ایک شخص گیدڑ کے اس گروپ کے پاس جائے اور پیغام دے کہ گاؤں کا نمبردار آپ سب کو بلا رہا ہے اور آپ کے گروپ کا نمبردار بھی حاضر ہو۔یہ پیغام ملتے ہی گیدڑ کے گروپ میں ووٹنگ ہونے لگی کہ کسے نمبردار بنا کر پیش کیا جائے اور جو انسانوں کے نمبردار سے بات چیت بھی اچھے طریقے سے کرلے ۔آخر کا ر ایک گیدڑ کو نمبردار منتخب کرلیا گیا۔ جب گیدڑ اپنے گھروں سے نکلنے لگے تو انہوں نے سوچا کہ ہم سب کی شکل تو ایک جیسی  ہےنمبردار کا کس طرح پتا چلے گا۔ فیصلہ یہ ہو ا کہ  نشانی کےطور پر نمبردار کی ُدم کے ساتھ  ایک بڑی لکڑی باندھ دیں تاکہ نمبردار کی شخصیت کا پتہ چلے ۔ جب یہ گیدڑ کا گروپ گاؤ ں کے قریب پہنچا تو گاؤ ں کے لوگ پہلے ہی  ڈنڈے  اور شکاری کتے لے کر تیار بیٹھے تھے لوگوں نے اس گروپ پر اچانک حملہ کر دیا ۔تمام گیدڑ اپنی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے ۔کافی تعداد میں گیدڑ مارے گیے اور کچھ گیدڑ اپنے ِبلوں میں جا گھُسے نمبردار گیدڑ بھی اپنی بِل میں گھُسنے لگا اس کی دم کے ساتھ بندھی بڑی ٹہنی اس کے لیے رکاوٹ بن گئی ۔جب کے شکاری کتے بھی قریب ہی آچکے تھے بلوں میں موجود گیدڑ نمبردار کو زور زور سے پکارنے لگے کہ اندر آجاؤ اندرآجاؤ مگر بے بس نمبردار بولا میں تو اندر آنا چاہتا ہوں لیکن نمبرداری مجھے اند ر نہیں آنے دے رہی ۔اسی دوران لوگ بھی آپہنچے ڈنڈوں اور سوٹوں سے حملہ کر کے اس نمبردار کو بھی مار ڈالا اس طرح گاؤں کے لوگوں نے
سکھ کا سانس لیا۔
 
کہانی کا سبق:
دیکھو بچو ! کچھ کر نے سے پہلے نا سوچنا کتنے نقصان کا باعث بنتا ہے۔اس لیے ہمیں ہر کام کرنے سے پہلےاچھی طرح سے سوچنا چاہیے۔