History of islam in urdu: Part two

History of Islam Part 2
History of islma in urdu
 
ابرہہ
ابرہہ پکا عیسائی تھا ۔اس نے صنعا میں ایک بڑا گرجا بنوایا اور عرب بھر میں اعلان کردیا کہ آئندہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اس کاطواف کیا کریں۔لیکن عرب چونکہ خانہ کعبہ کا بہت احترام کرتے تھے اس لیے ابرہہ کے حکم کی پرواہ نہ کی۔ابرہہ ایک لشکر جرار لےکر 570 میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا تھا تاکہ خانہ کعبہ کو مٹا کر اہل عرب کو اپنے خود ساختہ گرجا  کی زیارت  پر مجبور کرے ۔لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور  تھا  جب وہ مکہ کے قریب آیا تو اللہ تعالی نے اس پر عذاب نازل کیا اور پرندوں کے غول کے غول بھیج دیےجو پتھر  کی کنکریاں برساتے تھے ۔ان کنکریوں کے بادل نے اس زور کا طوفان اٹھایا کہ ابرہہ کے ہاتھی گھبراکے چیخنے لگےاور اپنے ہی آدمیوں کو روند ڈالا ۔چنانچہ ابرہہ کی فوج تباہ و  برباد ہو گئی۔ قرآن حکیم کی سورۃ الفیل میں یہ واقعہ مذکور ہے ۔
ابرہہ  کے بعد اس کے بیٹے  حکمران بنے ۔پرانے بادشاہوں کی اولاد میں سے کچھ لوگ باقی تھے انہوں نے شاہ ایران کی مدد سے دوبارہ  یمن پر قبضہ کرلیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایران کے بادشاہ نے اپنا حاکم بھیج کر یمن کو ایرانی صوبہ بنالیا۔
غسانی حکومت
یمن کے  علاوہ عراق میں سلطنت حیرہ اور شام کی سرحد پر غسانی حکومت قائم تھی جس کا حاکم عیسائی ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ تک غسانی لوگ عیسائی تھے پھر اسی عہد میں مسلمان ہوگئے ۔
تمدنی اور سماجی حالت
 ظہور اسلام سے قبل عرب تمدنی لحاظ سے بہت پست  تھے۔لہٰذا تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ان کی حالت یکساں نہ تھیں دراصل تمدن اور معیشت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
یمن کا تمدن
 عرب کے جن علاقوں کی معاشی حالت اچھی تھی وہاں تمدن  نے بھی ترقی کی۔یمن  کے علاقوں میں رہنے والے چونکہ خوشحال تھے اس لیے وہاں تہذیبی ترقی کے آثار بھی ملتے ہیں ۔صنا اور اس کے قریب جن عظیم الشان قلعوں اور فصیلوں کے آثار ملتے ہیں ان سے اہل یمن کی قدرتی حالت کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہاں ایک ترقی یافتہ قوم آباد تھی سبا کے دارلحکومت کا مارب بنداور اس سےآب پاشی کا انتظام متمدن انسانوں کا کارنامہ تھا۔
شام و عراق کا تمدن
اسی طرح حیرہ اور حوران جو عراق و شام کی سرحد پر عربی حکومتوں کے دارالحکومت تھے۔خاصے ترقی یافتہ تھے ان کا رہن سہن اور معاشی نظام اپنے قرب و جوار کی ایرانی اور رومی سلطنتوں کے مطابق تھا ۔لیکن عرب کے اندرونی مقامات کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
عربی زبان کے اثرات
عربی زبان نہایت وسیع  ہے مگر اس کے باوجود جن چیزوں کا تمدن اور اسباب معاشرے سے تعلق ہے  ان کے لیے خاص عربی زبان میں کوئی لفظ نہیں ملتامثلاً سکہ،چراغ ،کوزہ،طشت ،و درہم یا دینار وغیرہ کے لئے جو لفظ رائج  ہوئے وہ سب دوسری زبانوں سے لیے گئے تھے  عربی زبان ان ادبی لحاظ سے بہت مالدار ہے اور اہل عرب کو اپنی زبان دانی پر اتنا فخر تھا کہ وہ غیر عرب لوگوں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے۔  عرب میں شعر و شاعری کا بڑا چرچا تھا کیونکہ عام طور پر عرب لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے  اس لئے ان کے یہاں تصنیف و تالیف کا کوئی سلسلہ نہ تھا  وہ بھی شاعر کو زبانی یاد کرلیا کرتے تھے عربوں کی قوت حافظہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہے اشعار میں زیادہ تر جنگوں کےحالات یا اپنے قبیلہ کی بہادری کا ذکر ہوتا تھا اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ شاعر اپنی محبوبہ کا نام لے کر اشعار میں اس کی تعریف کرتا تھا ۔ادبی  میلوں میں شاعر اپنا کلام سناتے اورحسب  قابلیت خراج تحسین وصول کرتے تھے۔
مصنف غلام احمد حریری۔اسلامی دستور حیات