غزوہ احد

غزوہ احد

jang e ohd
مدینہ منورہ کے شمال میں تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑ ہے جیسے احد کہتے ہیں۔ یہ پہاڑشرقاً غرباً پھیلا ہوا ہے جس کے دامن میں مسلمان اور کفار کے درمیان ایک جنگ ہوئی جو تاریخ اسلام میں غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔
 کفار کا جذبہ انتقام:
 جنگ بدر میں ناکامی کا داغ دھونے اور قریش کے بڑے سرداروں کے قتل کا بدلہ چکانے کے لئے قریش مکہ نے زبردست تیاریاں شروع کردیں ابو سفیان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ مشرکین مکہ اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑکایا۔سال بھر سازو سامان جمع ہوتا رہا ابوسفیان نے قسم کھائی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا نہ نہاؤں گا  اورنہ ہی سر میں تیل ڈالوں گا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ:
 مکہ کےرائیس صوان نے جس کا باپ بدر کے میدان میں مارا گیا تھا ایک شخص عمیر بن وہب کو آمادہ کیا کے پوشیدہ طور پر مدینہ جاکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر آؤ میں تمہارا قرض اتار دوں گا اور پھر تمہارے اہل و عیال کا کاخرچ بھی اٹھاؤں گا۔ دونوں نے نہایت رازداری سے کام لیا  عمیر بن وہب تلوار زہر میں بجھا ئی اور مدینہ پہنچا۔ مسجد نبوی کے دروازے پر جا کر اونٹ  بٹھایا ۔ حضرت عمر فاروق نے دیکھ لیا اوربارگاہ نبوت میں عرض کی  کہ عمیر بن وہب کی  نیت نیک معلوم نہیں ہوتی۔چند صحابہ نے پکڑ کر اسے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا آپ نے وہ تمام گفتگو بیان کردی جو عمیر اور صوان کے درمیان ہوئی تھی۔عمیر نےاقرار کیا اور کہا کہ اس کا علم میرے اور صفوان کے سوا کسی کو نہیں تھا آپ سچے نبی ہیں میں اسلام لاتا ہوں۔ صوان کی مراد پوری نہ ہوئی عمیرمسلمان ہوکر لوٹا اور اس کی تبلیغ سے بکثرت آدمی مشرف بہ اسلام ہوئے دیگر مشرکین بھی اس قسم کی سازشوں میں مصروف رہاکرتے تھے۔
اقتصادی ناکا بندی کا خوف:
 بدر کی شکست سے قریش پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مسلمان جب چاہیں شام کا تجارتی راستہ بند کر کے ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اپنی معیشت کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے مدینہ کی اسلامی ریاست کو راستہ سے ہٹا نا ضروری سمجھا۔
کفار مکہ کی جنگی تیاریاں :
قریش نے آئے ہوئے تجارتی قافلے کا سارا نفع مسلمانوں کے خاتمے کے لئے الگ کر لیا۔ اور زورشور سے تیاریاں کر رہے تھے اورمختلف قبائل کا دورہ کرکے انہیں مسلمانوں کے خلاف  مدد پر آمادہ کیا ۔
کعب بن اشرف یہودی مدینہ سے چل کر مکہ آیا اس نے قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جوش انگیزشعر  کہے اور قریش کی مدد کا عہد کیا ۔
کفار قریش ما ہ شوال 3ہجری میں بڑے سروسامان سے جانب مدینہ روانہ ہوئے حضرت عباس نے جو اسلام لا چکے تھے اور مکہ میں مقیم تھے حضور ﷺ کو خفیہ اطلاع بھجوادی۔ اس فوج میں 700 ذراہ پوش اور200 سوار  تھے کمان ابوسفیان نے سنبھالی ۔قریش سپاہ مدینہ پہنچی تو مغربی کنارے سے ہوکر شہر کی شمالی جانب میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ لوگ بدھ کے روز پہنچے اورآہستہ آہستہ احد کی طرف بڑھنے لگے ۔
حضور پاک ﷺکا صحابہ سے مشورہ:
 ہفتہ کے روز ان کے خیمے احد کے میدان میں لگ گئے۔ جمعہ کے روز  صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اکثر مہاجرین اور تجربہ کار انصار نے مشورہ دیا کہ شہر میں پناہ گزیں ہو کر مقابلہ کیا جائے لیکن جوشیلے نوجوان باہر نکل کر صف آرائی  کرنا چاہتے تھے ان کے اصرار پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار مسلمانوں کے ساتھ احد  کی طرف جہاں مشرکین مکہ خیمہ زن تھے بڑھے۔
عبداللہ بن ابی منافقین بھی تین سو سواروں کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ وسلم کے ہمراہ پابرکاب  ہوا تھا مگر پھرعذرلنگ کرکے واپس لوٹ گیا اور مسلمانوں کی تعداد صرف 700رہ  گئی
 فوجیوں کی صف بندی۔
احد  پہنچ کر پہاڑ کی پشت پرصف آرائی ہوئی۔پہاڑ کی پشت سےمشرکین  کے حملے کا خطرہ تھا اس لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس آدمیوں کا دستہ اس کی حفاظت پر متعین کرکے تاکید فرما دی فتح ہو یا شکست کسی حال   میں بھی تم لوگ اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ قریش  تعداد اور سازوسامان ہر چیز میں مسلمانوں سے زیادہ تھے انہوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ صف بندی کی ممنہ پر خالد بن ولید،میسرہ  پر عکرمہ بن ابی جہل، سواروں پر صفوان بن امیہ،تیراندازون پر عبد اللہ بن ربیعہ علم طلحہ کے ہاتھ میں تھا ۔
جنگ کا آغاز :قریش کے لشکر سے پہلے ابو عامراور پھر علمبردار لشکر طلحہ آگے بڑھا اور طنزیہ پکارا””کون ہے جو مجھے جہنم میں بھیج دے یا میں اسے جنت میں پہنچا دوں””  اس کے جواب میں حضرت علی نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا  اس کے بعدعام جنگ شروع ہوگئی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو دجانہ انصاری نے بے پناہ حملوں سے مشرکین کی صفیں درہم برہم کردی ۔حضرت حمزہ جوش میں دور تک دشمن کی صفوں میں گزرتے چلے گئے جبیر بن مطعم کے غلام وحشی  نے جو آپ کی تاک میں تھا نیزہ مار کر شہید کر دیا۔
گھمسان کی جنگ :
قریش بڑی بہادری سے لڑ رہے تھے ان کے علمبردار پہیم قتل ہو رہے تھے لیکن علم سر نگوں نہیں ہونے پاتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ابو دجانہ انصاری کے حملوں نے آخر قریش کے پاؤں اکھاڑدیےحضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی آپ نے اسے دیکھا کر فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا ۔ابو دجاجہ اٹھےاور سوال کیا یارسول اللہ ﷺ کا حق کیا ہے فرمایا اس کو دشمن پر چلائے چلے جاؤحتی ٰ  کہ ٹیڑھی ہوجائے ۔عرض کیا میں یہ خدمت بجا لاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار انہیں عطا فرمائی ابودجانہ نے سرپر سرخ رومال باندھا جو جنگ کے وقت کی علامت ہوتا تھا فخر کی چال سے صفوں کے درمیان سے نکلے حضور پاک صلی اللہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی اس چال سے ناراض ہوتا ہے لیکن ایسے موقع پر نہیں ابودجانہ دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے پہاڑی کے دامن میں پہنچے تو مکہ کی عورتیں دف بجا رہی تھی ایک نغمہ نوازی کر رہی تھی ابو دجانہ نے اس کے سر پر تلوار تولی اور پھر روک لی انہیں پسند نہ آیا کہ سرور کائنات کی تلوار عورت کے خون سے آلودہ ہو۔ یہ عورت  ہندہ زوجہ ابو سفیان تھی۔
کفار مکہ کا گھبرا کر میدان جنگ سے بھاگنا:
مجاہدین دیکھتے ہی دیکھتے دشمن پر چھا گئے دشمن کے بیس سے زائد آدمی مارے گئے مشرکین گھبرا کر بھاگ گئے ان کی عورتیں بھاگتی نظر آئیں .
خالد بن ولید کا درہ سے حملہ :کردیا یا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب تک اپنی جگہ پر تھے چند جاں بازوں کے ساتھ روکا مگرسب شہید ہوئے ۔حضرت خالد نے بڑھ کر لوٹنے والے مسلمانوں پر حملہ کر د یا یہ لوگ بالکل غافل تھے اس لیے وہ ناگہانی حملہ کی تاب نہ لا سکے  اور ایسے بدحواس ہوئے اپنے بیگانے کی تمیز نہ رہی اور آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگے۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ حضورﷺ کے پاس تھے شہید ہوگئے اور یہ خبر اڑ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت پائی ۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے  سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ اور بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف 12 ہزار باقی رہ گئے  لیکن ذوالفقار حیدری اس وقت بجلی کی طرح چمک رہی تھی  حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شکستہ ہو کر تلوار پھینک دی ۔اب لڑنے سے کیا حاصل؟؟
ابن نضر انصاری نے کہا اب زندہ رہ کر کیا کریں گے اور لڑتے لڑتے  شہید ہوگئے ۔ بہت سے جان نثار اب بھی لڑ رہے تھے عین اس وقت کعب بن مالک کی نظر آپ پر پڑی انہوں نے پہچان کر پکارا مسلمانوں !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ہیں یا آواز سنتے ہی  ٹوٹی ہوئی ہمت پھر سے بن گئی اور مسلمان اس طرف آ گئے کفار نے بھی ہر طرف سے سمٹ کر ادھر کا رخ  کیا ان کا ریلا دیکھ کر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ کون مجھ پر جان دیتا ہے اس آواز پر سات انصاری بڑھے اورایک ایک کرکے نثار ہوتے گئے۔
 حضور علیہ وسلم کا زخمی ہونا :
 عبداللہ بن قمیہ  بڑھتے بڑھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اور چہرہ انور پر تلوار ماری آہنی خود کی دو کڑیاں  رخسار میں پیوست ہوگئیں یہ دیکھ کر جاں نثاروں نے آپﷺ کو حصار میں لے لیا ابو دجانہ آپ  ﷺکے سامنے جھک کر سینہ سپر ہوگئے ۔جو تیر آتا تھا اسے پیٹھ پرروکتے  تھے حضر ت طلحہ تلوار کے وارہاتھ سے روکتے تھےایک ہاتھ کاٹ کر الگ ہوگیا۔ حضور پاک ﷺ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی ۔لیکن رحمت عالمﷺ کی زبان پر اس وقت بھی یہ الفاظ تھے
“اے خدایا میری قوم کو بخش دے وہ جانتے نہیں”
چہرہ انور سے خون جاری تھا ۔حضرت علی اورحضرت فاطمہ نے زخم دھویا اور چٹائی  کا ٹکڑا جلا کر اسے زخم  میں بھرا اس سے خون رک گیا۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا پہاڑی پر چڑھنا:
مشرکین کا حملہ ہو ا تو آپ چند جانثاروں کے ساتھ پہاڑی کے اوپر چلے گئے مشرکین کی فوج میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیل گئی  ابو سفیان نے اس کی تصدیق کے لیے پہاڑی پر چڑھ کر آواز دی اس پر بھی کوئی جواب نہ ملا تو اس نے نعرہ لگایا کہ” سب مارے گئے ۔”
حضرت عمرسےضبط نہ سکھا ۔بولے “دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں” یہ سن کر ابو سفیان نے ہبل کا نعرہ لگایا۔(اغل ھبل) (ہبل کی جے) صحابہ کرام نے حضور کے حکم سے جواب دیا۔(اللہ اعلیٰ واجل) مسلمانوں کے سنبھلنے کے بعد قریش کی ہمت پست ہوگئی اور لوٹ گئے۔
جنگ میں مسلمانوں کا نقصان :
اس معرکہ میں ستر مسلمان شہید ہوئے جن میں زیادہ تر انصار تھے ۔حضرت حمزہ  جیسے نامور بہادر نے بھی اسی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ان کو جبیر بن معطم کے ایک حبشی غلام وحشی نامی نے شہید کیا۔جبیر کا ایک چچا مارا گیاتھا۔وہ اس کا انتقام آنحضور ﷺ سے لینا چاہتاتھا۔ اس نے وحشی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ تم نے یہ کام انجام دیا تو تمہیں آزاد کردوں گا۔ وحشی سے ہند بھی بہت انعام کا وعدہ کیا تھا کیونکہ ہندہ کے باپ عتبہ کو حضرت حمزہ نے غزوہ بدر میں ہلاک کیا تھا۔
وحشی ہنگامہ کا رزار میں حضرت حمزہ کی گھات میں رہا۔ حضرت حمزہ تلوار ہاتھ میں لیے دشمن کی صفیں الٹ رہے تھےکہ وحشی نے اوٹ میں بیٹھ کر حربہ گھمایا اور تاک کر حضرت حمزہ پر پھینکا جوان کے زیر ناف لگا۔حضرت حمزہ شہید ہوگئے۔ہندہ نے ان کا پیٹ چاک کیا۔ کلیجہ نکالا اور منہ میں ڈال کر چبانے لگی نگل نہ سکی اور اگل دیا۔اس نے شہد ا کے کان اور ناک کاٹے اور ان کا ہار بنا کر پہنے اپنے سونے کے زیورات وحشی کو بخش دئے ۔پھر ایک اونچی پہاڑی پر جاکر بلند آواز سے فتح کا گیت گانے لگی۔
جنت میں مسلم خواتین کی جانثاری :
اس غزوہ میں مسلمان عورتوں نے بھی بڑی بہادری اور جان نثاری دکھائی حضرت عائشہ اور ام سلیم مشک میں پانی بھر  کر لاتی تھی اور زخمیوں کو پلاتی تھیں ۔مشرکین کے عام حملہ کے وقت جب آنحضرت ﷺ کے ساتھ صرف چند جانثار باقی رہ گئے تھے آپ کی حفاظت کے لیے حضرت ام عمارہ آپ کے پاس پہنچیں جو مشرک آپ کی طر ف بڑھتاتھا اس کو تیر اور تلوار کے ذریعہ روکتی تھیں ۔ابن قمیہ کا فر جب آنحضور ﷺ کے پاس پہنچ گیا تو ام عمارہ نے بڑھ کر اسے بھی روکا ۔ اس میں اس کا شانہ زخمی ہوگیا۔انہوں نے بھی تلوار چلائی لیکن ابن قمیہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے بچ گیا۔
مسلم خواتین کا بے مثال صبروتحمل:
حضرت حمزہ کی بہن اور حضور پاک ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر مدینہ سے نکلیں۔مشرکین حضرت حمزہ کی لاش کوبگاڑ دیا تھا۔ اس لیے حضورپاک ﷺ نے حضرت صفیہ کے صاحبزادے حضرت زبیر بن عوام کو بلاکرحکم دیا کہ صفیہ بھائی  کی لاش نہ دیکھنے پائے  انہوں نے ماں سے کہا وہ “بولیں میں بھائی کا ماجرہ سن چکی ہوں لیکن راہ خدا میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں ہے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت لے کر لاش پر گئی عزیز بھائی کے بدن کے ٹکڑے دیکھ کر( ان للہ وانا الیہ راجعون) پڑھ کر خاموش ہوگئی اور مغفرت کی دعا مانگی۔
مسلمانوں کی مدینہ واپسی: قریش کے واپس جانے کے بعد مسلمان بھی مدینہ لوٹ آئے ۔اس وقت مدینہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ ہر گھر میں کہرام بپا تھا۔آنحضرت ﷺ کا دل بھر آیا کہ سب کا ماتم ہورہا ہے لیکن آپ کے چچا حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں ۔یہ انسانی فطرت تھی چنانچہ انصار نے آپ کا تاثر دیکھ کر اپنی عورتوں کو حضرت حمزہ کا سوگ منانے کےلیے بھیجا۔ لیکن آپ نے شکریہ کےساتھ واپس کردیاکہ مردوں پر نوحہ کرناجائز نہیں۔
غلام احمد حریری