Islamic battle-Jang e mota

 

غزوہ موتہ
 
حاکم بصریٰ کا حارث بن عمر کو شہید کرنا ۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت حارث بن عمر کو شرجیل حاکم بصریٰ کے پاس دعوت اسلام پر مشتمل خط دے کر بھیجا تھا۔اس نے ان کو شہید کردیا۔
 
آپ کو اس کا سخت صدمہ ہوا ۔زید بن حارثہ کو تین ہزارکی جمعیت کے ساتھ حارث کے انتقام کے لئے بھیجا اور ہدایت کی کہ اگر زید شہید ہوں تو عبداللہ بن رواحہ کو سپہ سالار بنایاجائے۔شرجیل کے جاسوسوں نے مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبر دی۔وہ ایک لاکھ فوج لے کر مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔
 
زید بن حارثہ نے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کرنا چہا،مگر عبداللہ بن رواحہ نے روک دیاکہ ہمارا مقصد فتح نہیں بلکہ شہادت ہے ۔چناچہ جوش شہادت میں تین ہزار مسلمانوں کا یہ گروہ ایک لاکھ کے مقابلہ میں آیا۔
 
دنیا کی انوکھی جنگ ۔
اس تناسب کے باوجود مسلمانوں نے بڑی بہادری سے جنگ لڑی لیکن تین ہزار اور ایک لاکھ کا مقابلہ ہی کیا۔چنانچہ پہلے زید لڑتے لڑتے شہید ہوئے،ان کے بعد حضرت جعفر نے علم سنبھالا ۔انہوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ۔اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا اٹھایا۔یہ بھی مرتبہ شہادت سے سرفرازہوئے۔
 
سب سے آخر میں حضرت خالد بن ولید کے ہاتھوں علم آیا۔یہ بڑی بہادری اور خوش تدبیری سے باوی ماندہ فوج کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال لائے۔آنحضرتﷺ کو جعفر کی شہادت سے سخت قلق ہوا ۔ان کی شہادت کی خبر سن کر آنکھوں سے بے اختیار آنسوں جاری ہوگئے۔
 
یہ لڑائی موتہ کے مقام پر ہوئی ۔یہ شام کی ریاست بلقاء کا ایک قصبہ تھا اور کوہ سینا کے دامن میں واقع تھا۔ادھر جنگ کا فیصلہ ہوا اور ادھر مدینہ میں آنحضرتﷺ نے حضرت زید ،حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کی خبر دی اور فرمایا۔”جھنڈے کو (سیف من سیلوف اللہ ،اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار)نے سنبھالا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر فتح دی ہے۔خالد اسی دن سے سیف اللہ کہلانے لگے۔(تاریخ طبرانی) جن جنگوں میں آنحضرتﷺ خود شرکت کی ہو وہ غزوات کہلاتی ہیں ،اور جن میں آنحضرتﷺ نے شرکت نہ فرمائی ہوان کو سریہ کہتے ہیں ۔ جنگ موتہ کو بھی سریہ موتہ کہاجاتا ہے کیونکہ آنحضرتﷺ اس میں بنفس بنفس شریک نہیں ہوئےتھے۔